اسلام آباد پاکستان کی حکومت نے متحدہ عرب امارات اور سوئس حکومتوں سے پاکستانیوں کے اثاثوں، آف شور کمپنیز اور بینک اکاﺅنٹس سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے مذاکرات کا آغاز کردیا تاکہ ان پاکستانیوں کو بھی ٹیکس کے دائرے میں لایا جاسکے۔وزیر مملکت برائے فنانس رانا محمد افضل نے بتایا کہ پاکستان نے دبئی اور سوئزرلینڈ کے حکام
سے مذاکرات کا آغاز کردیا، جس کا مقصد پاکستانیوں کے اثاثوں کی معلومات کا حصول ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان، متحدہ عرب امارات اور سوئزرلینڈ آرگنائزیشن آف اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈولپمنٹ (او ای سی ڈی) کے رکن ممالک ہیں اور اس تنظیم کے تحت ان ممالک کو دیگر رکن ممالک کے شہریوں کی اثاثوں کی معلومات شیئر کرنا لازمی ہے۔انہوں نے کہا کہ او ای سی ڈی رکن ممالک کے درمیان معلومات شیئرنگ کرنے کا آغاز یکم جنوری 2018 سے ہوگیا ہے۔ پاکستان کے ہزاروں شہریوں نے ملک میں ٹیکس بچانے کے لیے مذکورہ ممالک میں آف شور کمپنیوں کے ذریعے اربوں ڈالر کے اثاثے بنائے۔محمد افضل کا کہنا ہے کہ او ای سی ڈی کے منشور کے تحت پاکستان اپریل 2016 میں سامنے والے پاناما اسکینڈل، جس میں 500 پاکستانیوں کے ناموں کا انکشاف کیا گیا تھا کے اثاثوں کی معلومات حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے گا۔ جن لوگوں نے اپنی رقوم بیرون ملک منتقل کیں ان کے پاس حکومت کی جانب سے بنائی گئی ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے پاکستان میں مذکورہ اثاثوں پر مخصوص ٹیکس ادا کرکے انہیں قانونی شکل دینے کا وقت ہے۔انہوں نے نشاندہی کی کہ
انڈونیشیا اور ملائیشیا نے اس قسم کی ایمنسٹی اسکیمس سے فائدہ اٹھا کر اپنے شہریوں سے اربوں ڈالر کے ٹیکس وصول کیے۔ دوسری جانب ایف آئی اے کو بھی دبئی میں موجود پاکستانیوں کے اربوں ڈالر کے اثاثوں کی معلومات کے حصول کے لیے تحقیقات سونپ دی گئی ہیں۔