اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ آف پاکستان نے ماورائے عدالت قتل کے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران حفاظتی ضمانت کے باوجود پیش نہ ہونے پر سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے خفیہ ایجنسیوں کو ان کی تلاش کا حکم دیا ہے ۔ جمعہ کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ
نے کراچی میں پولیس مقابلے میں مارےجانے والے نقیب اللہ قتل پر از خود نوٹس کی سماعت کی۔اس موقع پر آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ سمیت سندھ پولیس کے اعلیٰ افسران بھی پیش ہوئے۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ کیا راؤ انوار پیش ہوئے ہیں جس پر انہوں نے بتایا کہ وہ پیش نہیں ہوا جس پر چیف جسٹس نے اے ڈی خواجہ کو کہا کہ آپ کی ذمہ داری اب بھی وہیں پر ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے راؤ انوار کو پیش ہونے کیلئے شفاف موقع دیا ٗ حفاظتی ضمانت بھی دی، لگتا ہے راؤ انوار نے پیش نہ ہو کر بڑا موقع گنوا دیا اور اس کی گرفتاری کیلئے پولیس کو تمام سہولیات فراہم کریں گے۔نجی ٹی وی کے مطابق سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیس کے دیگر ملزمان کا کیا ہوا جس پر آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ 21 میں سے 9 لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے یہ تو سندھ پولیس کی 50 فیصد کارکردگی بھی نہیں جبکہ پنجاب پولیس نے میرے حکم پر 36 گھنٹوں میں زینب کے قاتل کو گرفتار کرلیا تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی کوششوں کے باوجود رزلٹ نہیں آرہے ٗمیں آج بہت پْرامید تھا کہ کوئی نہ کوئی ڈیویلپمنٹ ہوگی۔سماعت کے دور ان طویل انتظار کے
بعد بھی راؤ انوار پیش نہ ہوئے تو اعلیٰ عدالت نے سابق ایس ایس پی ملیر کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔سماعت کے دور ان چیف جسٹس ثاقب نثار نے آئی جی سندھ سے استفسار کیاپولیس کو ابھی تک کوئی کلیو نہیں ملا؟ جس پر آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے جواب دیا کہ گزشتہ روز شام کو راؤ انوار سے واٹس ایپ کے ذریعے رابطہ ہوا تھا۔آئی جی سندھ نے بتایاکہ بدھ کو راؤ انوار نے مجھے واٹس اپ پر کال کی تھی اور عدالت میں پیش ہونے کی یقین دہانی کروائی تھی۔انہوں نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ عدالت معاونت کرسکتی ہے گرفتار کرنا پولیس کا کام ہے جبکہمعاملے کو شفاف رکھنے کیلئے نئی ٹیم تشکیل دی ہے۔اس موقع پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ راؤ انوار جہاں بھی ہوگا اسے ڈھونڈ نکالیں گے، پہلی ترجیح اس کی حاضری ہے اور نقیب اللہ کے والدین کو بتائیں کہ سپریم کورٹ کوشش کررہی ہے۔سپریم کورٹ نے اسٹیٹ بینک کو حکم دیاکہ راؤ انوار کے تمام اکاؤنٹس منجمد کردئیے جائیں جبکہ عدالت نے حساس اداروں آئی ایس آئی،آئی بی اور ایم آئی کو ہدایت کی کہ راؤ انوار کی گرفتاری میں سہولت فراہم کریں اور اس حوالے سے
رپورٹ پیش کی جائے۔اعلیٰ عدالت نے چاروں صوبوں کے آئی جیز کو ہدایت کی کہ نقیب اللہ محسود قتل کیس کے گواہوں کا تحفظ یقینی بنائیں اس کے علاوہ عدالت نے راؤ انوار کو گرفتار نہ کرنے کا حکم بھی واپس لیتے ہوئے سپریم کورٹ نے نقیب اللہ محسود ازخود نوٹس کی سماعت15 روز کیلئےملتوی کردی۔اس سے قبل سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی ممکنہ طور پر سپریم کورٹ میں پیشی کے سلسلے میں پولیس کی بھاری نفری کو عدالت عظمیٰ کی سیکیورٹی کیلئے تعینات کیا گیا تھا۔واضح رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو 13 جنوری کو ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔پولیس نے دعویٰ کیا تھاکہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کےدوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھاتاہم اس واقعہ کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازعہ بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔بعد ازاں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یہ معاملہ اٹھا تھاجس کے بعد وزیر داخلہ سندھ اور بلاول بھٹو نے واقعہ کا نوٹس لیا تھا اور تحقیقات کا حکم دیا تھا۔بعد ازاں 19 جنوری کو چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے کراچی میں مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کے قتل کا از خود نوٹس لے لیا۔