اسلام آباد : پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے مختلف ٹی وی چینلز کو اشتہارات نہ دینے کے حوالے سے لیک ہونے والی ویڈیو کا اعتراف کر لیا ہے۔آج انہوں نے پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کی جس میں ان سے لیک ویڈیو سے متعلق سوال کیا گیا۔مریم نواز نے کہا کہ جو آڈیو چلائی جا رہی ہے وہ آواز میری ہے۔ میں یہ نہیں کہوں گی کہ جوڑ توڑ کر بنائی گئی،اشتہائی روکنے کا حکم دینے والی آواز میری تھی۔میں نے پارٹی کا میڈیا سیل چلاتے وقت وہ بات کی ۔مریم نواز نے کہا کہ اس متعلق تفصیلی بات بعد میں کروں گی۔ ۔واضح رہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بعد مریم نواز کی بھی ایک آڈیو ٹیپ لیک ہو گئی تھئ جس میں وہ مختلف چینلز کے اشتہار روکنے کی ہدایت کر رہی ہیں۔
یہ آڈیو ٹیپ مسلم لیگ ن کے دور کی ہے، جس میں مریم نواز کی میڈیا ٹیم کو دی جانے والی ہدایات ہیں۔ مبینہ آڈیو لیک میں مریم نواز نے کئی چینلز کے اشتہار روکنے کی ہدایت کی۔ آڈیو ٹیپ میں مریم نواز کا کہنا تھا کہ ٹوئنٹی فورنیوز، نائنٹی ٹونیوز،سماء اور اےآروائی کوبالکل کوئی اشتہار نہیں دیا جائے گا۔ مسلم لیگ ن کی مرکزی نائب صدر مریم نواز کی یہ مبینہ آڈیو ٹیپ لیک ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف قسم کے تبصرے کیے جا رہے تھے۔ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ موجودہ دور میں صحافیوں پر پابندی لگنے اور میڈیا کے کنٹرول ہونے کا شور کرنے والے اپنے دور حکومت میں کیا کچھ کرتے رہے ہیں اس کا ثبوت سامنے آ گیا ہے۔ مسلم لیگ ن کی مرکزی نائب صدر مریم نواز کی مبینہ آڈیو ٹیپ لیک ہونے کے بعد معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ دیکھتے ہیں اب صحافت کتنی آزاد ہے، اب پریس کلب اس پرکیا بیان جاری کرتے ہیں۔ آڈیو ٹیپ پر بات کرتےہوئے ڈاکٹر شہباز گل کا کہنا تھا کہ اگر سب چپ رہے تو پھر ثابت ہو جائے گا کہ کچھ لوگوں کی صحافت آزاد نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس آڈیو ٹیپ پر سب چپ رہے تو یہ ثابت ہوگا کہ کچھ لوگوں کی صحافت مریم کے پاس گروی پڑی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر شہباز گل نے مزید کہا کہ یہی کچھ اگر پاکستان تحریک انصاف والوں نے کیا ہوتا تو توآزاد صحافت نے اب تک مذمت کردینی تھی، جھوٹے منہ ہی کچھ کرلیں۔
پریانکا چوپڑا کا اپنے شوہر کی پوسٹ پر رد عمل ، طلاق سے متعلق افواہیں دم توڑ گئیں
میں نے پارٹی کا میڈیا سیل چلاتے وقت وہ بات کی یہ آڈیو میری ہے۔ مریم نواز نے اپنی لیک آڈیو کے مصدقہ ہونے کا اعتراف کر لیا۔
اب دیکھتے ہیں آزادِ صحافت کے علمبردار کیا کہتے ہیں۔ pic.twitter.com/By1HXe8c3o
— Jhanzaib (@Jhanzaib_S) November 24, 2021