Thursday April 25, 2024

پا ئلٹ کے غرور نے 97 جانیں لے لیں، کراچی طیارے حادثے میں زندہ بچنے والے مسافر کے انکشافات

اسلام آباد : 22 مئی 2020 کے پی آئی اے کے طیارے کے حادثے میں بچ جانے والے دو افراد میں سے ایک بینک آف پنجاب کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ظفر مسعود کا کہنا ہے کہ اگر پائلٹ نے ائیر ٹریفک کنٹرولر کی بات مان لی ہوتی، واپسی اور لینڈنگ کے لیے لبما روٹ اختیار کر لیا ہوتا تو یہ المیہ پیش نہ آتا۔جنگ اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے مزید کہا کہ میرا خیال ہے کہ اللہ نے فیصلہ کر لیا ہو گا کہ یہ میرے جانے کا وقت نہیں اور میں زندہ بچ جاؤں گا۔ حادثے کے بعد زندگی کے بارے میں میرا تصور بدل گیا۔

میں معجزوں پر یقین کرنے لگا ہوں اور میرا اللہ پر ایمان مضبوط ہوا ہے۔اس دن سب کچھ تیز سے ہو رہا تھا۔لگتا تھا کوئی بڑا واقعہ ہونے والا ہے۔میں جلدی نہیں اٹھتا لیکن اس دن الارم سے ایک گھنٹہ پہلے ائیرپورٹ پہنچ گیا۔ حالانکہ میں ہمیشہ عین وقت پر ہی پہنچتا تھا۔میری ایک اور فلائٹ کی بکنگ تھی جو گیارہ بجے روانہ ہونا تھی لیکن پھر میں نے پی آئی اے کی ایک بجے کی فلائٹ کا فیصلہ کیا تاکہ دو گھنٹے مزید دے سکوں۔ میں دیر تک سوئے رہنے کی عادت کی وجہ سے بدنام ہوں۔انہوں نے مزید کہا کہ اس نے نوے منٹ کی پرواز بہت اچھی رہی۔لینڈنگ بھی معمول کے مطابق ہو رہی تھی کہ طیارہ رن وے پر تین مرتبہ اچھلا اور دوبارہ ٹیک آف کر لیا، یہ بہت غیر معمولی تھا،کم ازکم مجھے کبھی اس کا تجربہ نہ ہوا۔پائلٹ طیارے کو تین ہزار فٹ اوپر لے گیا او دوبارہ لینڈنگ کی کوشش کی۔انجن فیل ہو گیا اور ہونی ہو کر رہی،اس ساری صورتحال کی تصویر کشی مشکل ہے،اس حادثے نے اپنے خالق اور اس کے معجزوں پر میرے ایمان کو مضبوط کیا،میری سیٹ 50 فٹ کی بلندی سے ایک عمارت کی چھت پر گری۔

وہاں سے اچھل کر وہ بالکل سیدھی گلی میں کھڑی ایک کارکے ہڈ پر آ گری،اگر سیٹ ٹیڑے زاوئیے سے یا الٹ کر گرتی تو میرے سارے اعضاء ٹوٹ گئے ہوتے، ظفر مسعود نے مزید کہا کہ غرور اور تکبر مہلک ہیں، ہمیں انہیں نکال کر باہر پھینکا ہو گا۔یہ پائلٹ کا غرور تھا جس نے 97 جانیں لے لیں۔اس نے ائیر ٹریفک کنٹعولر کی بات مان لی ہوتی، واپسی اور لینڈنگ کے لیے لمبا روٹ اختیار کر لیا ہوتا تو یہ المیہ پیش نہ آتا۔

FOLLOW US