Thursday December 12, 2024

جمائمہ خان نے ہی کپتان کو بڑی مشکل میں ڈال دیا، بنی گالہ اراضی کس کی ملکیت تھی اور این او سی کس کے نام پر جاری کیا گیا؟ کپتان کیخلاف ایک اور پنڈوراباکس کھل گیا

اسلام آباد (نیوزڈیسک) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان 2003ءمیں بنی گالہ کی زمین کے مالک نہیں تھے، اسلام آباد کے ریونیو ریکارڈ اور جمائما خان کے حلف نامے سے یہ بات سامنے آئی اور اس طرح یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ سپریم کورٹ میں عمران خان کی جانب سے جمع کرایا جانے

والا این او سی (نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ) اصلی نہیں تھا، بنی گالہ میں عمران خان کا گھر تعمیر کرنے کیلئے این او سی مبینہ طور پر بہارا کہو کی یونین کونسل نے 2003ءمیں جاری کیا تھا۔روزنامہ جنگ کے مطابق قبل ازیں ایک متعلقہ عہدیدار نے پہلے ہی سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ انہوں نے یہ دستاویز جاری نہیں کی، بنی گالہ کی زمین 11 جون 2005ءکو عمران خان کے نام پر منتقل ہوئی تھی۔ عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما خان نے 21 ستمبر 2004ءکو ایک پاور آف اٹارنی کے ذریعے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ مذکورہ زمین ان کی تھی اور وہ یہ زمین عمران خان کے نام پر منتقل کرنا چاہتی تھیں۔ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کیپٹن (ر) مشتاق احمد نے بتایا کہ یہ ناممکن ہے کہ یونین کونسل یا کسی ریونیو عہدیدار نے کسی ایسے شخص کے نام پر این او سی جاری کیا ہو جو زمین کا مالک ہی نہیں، ایسی دستاویزات صرف ایسے شخص کے نام پر جاری کی جاتی ہیں جو زمین کا اصل مالک ہو لیکن عمران خان کے وکیل بابر اعوان کی جانب سے سپریم کورٹ میں گزشتہ ماہ جمع کرایا جانے والا کمپیوٹرائزڈ این او سی مبینہ طور پر بہارا کہو کی یونین کونسل نے عمران خان کے نام پر جاری کیا تھا، اس دستاویز پر 2003ءکی تاریخ درج ہے۔رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کے ریونیو دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ جمائما خان نے 26 اپریل 2002ءکو میوٹیشن نمبر 7056 اور 16 اگست 2002ءکو میوٹیشن نمبر 7225، اور 28 اگست کو میوٹیشن نمبر 7246 اور 11 جولائی 2005ءکو میوٹیشن نمبر 7361 اور 7538 کے تحت 300 کنال اور 5 مرلہ زمین خریدی تھی لہٰذا، جون 2005ءسے پہلے بنی گالہ کی زمین جمائما خان کے نام پر رجسٹرڈ تھی اور عمران خان قانوناً گھر کی تعمیر کیلئے کسی ریونیو آفس سے این او سی حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ روزنامہ جنگ کے مطابق تازہ دستاویزی ثبوت ممکنہ طور پر پی ٹی آئی چیف کیلئے سپریم کورٹ میں مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں کیونکہ عدالت نے دھوکہ دینے کی نیت سے سپریم کورٹ میں جعلی دستاویزات جمع کرانے پر سخت احکامات جاری کر رکھے ہیں۔ ماہرینِ قانون اسے کیلیبری فونٹ کی طرح کا ایک اور سکینڈل قرار دے رہے ہیں۔

FOLLOW US