Sunday November 10, 2024

راؤ انوار پر مبینہ خودکش حملے کا معمہ حل نہ ہوسکا

مبینہ خودکش حملے میں ہلاک ہونے والی2 مبینہ دہشت گردوں کی تاحال شناخت نہ ہوسکی راؤ انوار پر مبینہ خودکش حملے کا معمہ حل نہ ہوسکاکراچی سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار پر ہونے والے مبینہ خودکش حملے میں ہلاک ہونے والی2 مبینہ دہشت گردوں کی تاحال شناخت نہ ہوسکی جن کی لاشیں سرد خانے میں موجود ہیں۔16 جنوری کی شب سابق ایس

ایس پی ملیر راؤ انوار نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ اپنے دفتر گڈاپ سے اپنی رہائش گاہ ملیر کینٹ جارہے تھے کہ ملیر کینٹ کے قریب ملیر لنک روڈ پر ان پر مبینہ خود کش حملہ ہوا جس میں حملہ آور کا جسم پھٹنے کے بجائے محض جھلس گیا جبکہ اس کے دیگر 2 ساتھی پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے۔واقعے کے بعد تمام لاشیں سرد خانے میں رکھوا دی گئی تھیں، اس واقعے کے بعد ہی راؤ انوار کے خلاف نقیب اللہ کیس کی تحقیقات کا آغاز ہوگیا تھا۔ مبینہ حملے میں ہلاک ہونے والے ایک شخص کی شناخت کچھ روز بعد ہی گل سعید کے نام سے کرلی گئی تھی جوکہ اورنگی ٹاؤن کے علاقے فرید کالونی کا رہائشی تھا۔گل سعید کے ورثا نے بھی الزام عائد کیا تھا کہ گل سعید بے گناہ تھا اور اس کا دہشت گردوں سے کوئی تعلق نہیں تھا ، 16جنوری کی شب اس مبینہ حملے میں ہلاک ہونے والے دو افراد کی لاشیں تاحال ایف ٹی سی کے قریب قائم چھیپا ویلفیئر فاؤنڈیشن کے سرد خانے میں رکھی ہیں جن میں سے ایک جھلسا ہوا مبینہ دہشت گرد ہے جبکہ دوسرے کی ہلاکت فائرنگ سے ہوئی تھی۔سرد خانے کے حکام نے کہا کہ متعدد افراد لاشیں دیکھ کرگئے ہیں لیکن کوئی بھی انھیں شناخت

نہیں کرسکا ہے۔واضح رہے کہ یہ دنیا کا سب سے حیرت انگیز خودکش حملہ تھا جس میں خود کش حملہ آور کا جسم پھٹا ہی نہیں اور محض جھلس گیا اور راؤ انوار کی بکتر بند سے ٹکرا کر دور جاگرا تھا،واقعے کے بعد جائے وقوعہ کا دورہ کرنے والے سی ٹی ڈی کے افسر راجہ عمر خطاب نے بھی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے بھی اب تک ایسا خودکش حملہ نہیں دیکھا جس میں حملہ آور کا جسم پھٹا نہ ہو۔انہوں نے کہا کہ انھوں نے لاتعداد بم دھماکوں کی تحقیقات کی،لاتعداد جائے وقوعہ دیکھے جبکہ اس کے علاوہ بیرون ملک سے بم دھماکوں کی تفتیش میں خصوصی کورسز بھی کیے لیکن کبھی بھی ایسا خودکش حملہ نہیں دیکھا جس میں حملہ آورکا جسم مکمل طور پر سلامت رہا ہو،اس واقعے میں خودکش حملہ آورکا صرف جسم جھلسا ہے،ایسا انھوں نے بھی پہلی بار ہی دیکھا۔علاوہ ازیں اس واقعے کے فوری بعد ہی نقیب اللہ کیس کی تحقیقات کا آغاز ہوگیا تھا،خودکش حملے کی تفتیش بھی سی ٹی ڈی کو منتقل کردی گئی تھی۔سی ٹی ڈی حکام نے بتایا کہ16جنوری کو ہونے والے مبینہ حملے کے وقت جو پولیس افسران تعینات تھے وہ سب نقیب

کیس کے بعد منظر عام سے غائب ہیں جس کے باعث تفتیش میںٹھوس پیش رفت نہ ہوسکی ہے۔

FOLLOW US